نئی جنگیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حکیم اُمت حضرت علامہ ؔ محمد اقبال رحمۃ اللہ نے فرمایا تھا

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
تحریر:محمد ظہیر اقبال
دنیا میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقع کے پیچھے اس کے اسباب اور وجوہات کا ایک سچ ہوتا ہےیہی اس واقع کے رونما ہونے کی اصل  سچائی ہوتی ہے بدقسمتی سے آج میڈیااسی سچ  کوچھپاتا ہے۔ہم جانتے  ہیں کہ دنیا کا زیادہ تر میڈیا  اہل یہود  و نصاریٰ کے قبضہ اور کنٹرول میں ہے لہذا ایسا کرنا  یقیناً ان کے مفادات کے حصول میں معاؤن و مدد گار ہوگااس پر تو ہم بعد میں تفصلی بحث کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا چینلز  کے مالکان کون لوگ ہیں؟اور کس کے مفادات کے حصول میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان میڈیا ہاؤسزز اور چینلز کے مالکان کون لوگ ہیں ؟ ایک طرف پاکستان فیفتھ جنریشن وار کا سامنا کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف ناک کے نیچے اسی فیفتھ جنریشن وار کے سب سے بڑے ہتھیار "میڈیا"  ملکی میڈیا  اپنے ہی ملک کے خلاف جنگی بنیادوں پر دن رات  مصروف ہے۔یہ سرا سر اپنی سالمیت اور دفاع سے غفلت اور لاپروائی   نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟جس کے نتجائج آنے والے دنوں میں انتہائی خطر ناک ہو سکتے ہیں۔فیفتھ جنریشن وار  کے سب سے طاقتور ہتھیارمیڈیا کے ذریعے کسی ملک کی  رائے عامہ کو اس ملک اور اس کے اداروں کے خلاف استعمال کرنے کو ہی تو دشمن کی کامیابی سمجھا جاتا  ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ کسی کام کا جب تک آخیر نہ ہو جائے اور کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے ہم اُس وقت تک اس جانب توجہ ہی نہیں کرتے۔آج کی دنیا میں لمحے  گنے جاتے ہیں اور ہم ابھی کل پرسوں جیسے خود فریبی کے جملوں میں سے نہیں نکلے۔اے کاش کوئی ایسا سر پھرا میرے وطن میں آئے جو اس غافل قوم کو یہ بات سمجھائے کہ "میڈیا کی آزادی اور ملکی سالمیت  و بقا "دونوں کو کیسے چلایا جاتا ہے اور یہ بھی بتائے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کو اگر اس میڈیا ہی سے خطرات لاحق ہو ں تو کیسے ان سے نمٹا جاتا ہے۔پاکستان کے سامنے انتہائی مشکل حالات ہیں اور آئیندہ اس سے بھی زیادہ مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا ہو گا ہم جیسے جیسے خود انحصاری اور خوداری کی جانب بڑھتے جائیں گے آپ دیکھیں گے کہ حالات ویسے ویسے ہی مشکل سے مشکل ہوتے جائیں گے لیکن ہمیں ہر صورت ثابت قدم رہنا ہو گا۔ پہلے سے کہیں زیادہ ایمان اور یقین کی طاقت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے ؛ نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

قعلے کی دیواریں جتنی زیادہ مضبوط اور وسیع ہوتی جاتی ہیں دشمن کی توپوں کےگولوں کا سائز بھی اتنا بڑھتا جاتا ہے۔لیکن آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ان بڑی بڑی اور مضبوط دیواروں کی جگہ جس چیز نے لے لی ہے جانتے ہیں وہ کیا چیز ہے؟

آئیں علامہ اقبال ؒ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس نے ان دیواروں کی جگہ لے لی ہے اور کیونکر لے لی ہے۔

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس ؛ جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے ؛ یہ وجود ِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ؛ ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام ؛ چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

تو قعلے کی دیواروں کی جگہ"عوام "نے لے لی ہے لہذا جیسے پہلے جنگوں میں ساری طاقت اور قوت ان دیواروں کو گرانے میں جھونک دی جاتی تھی آج کی دنیا میں یہی کام میڈیا کی قوت و طاقت کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کرنے اور انہیں حقیقت کو سمجھنےاور اس سے دور رکھنے کے لئے مختلف قسم کی غیر ضروری مصروفیات میں اُلجھا کر کیا جاتا ہے بلکہ ان کے دماغ کو کنٹرول اور قابو میں رکھنے کے لئے ہر طرح کے مثبت اور منفی ہتھکنڈےاستعمال کئےجاتے ہیں تاکہ اس کا سویا دماغ کہیں جاگ نہ جائے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کا کام عوام و ناس کو آگاہ رکھنا ہے تو ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیوں کہ میڈیا یہ کام ہرگز ہرگز نہیں کر رہا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا آپ کو گمراہ کرنے اور حقائق سے بےخبر رکھنے کے لئے آپ کے دماغ کو کسی دوسری جانب متوجہ کر نے کے لئے کام کر رہا ہے   نا صرف آپ کی سوچ اور فکرکو حقائق تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے بلکہ حقیقی واقعات کی نسبت کواپنی مرضی کے مطابق کسی دوسرے انداز میں آپ کے دماغ میں انجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ایک دفعہ پھر میں یہ بات آپ کے سامنے واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ میڈیا کا کام آپ کو آگاہ رکھنا نہیں ہے  بلکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کرنا ہے۔یہ کن لوگوں کا ایجنڈا  ہے اور یہ کون لوگ ہیں جو مخصوص مقاصد رکھتے ہیں۔

بہت سے لوگ ہمارے دوست نہیں ہوتے لیکن ہم انہیں دشمن نہیں  سمجھتے  جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست نہیں ہیں چونکہ ہم ان کی طرف سے اپنے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتےلہذا ہم انہیں دوستی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں حالانکہ یہ دوست ہونےکی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی مطلب کسی سے دوستی کے لئے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن کسی سے دشمنی ہونے کے لئے وجہ کا ہونا بہت ضروری ہے   یعنی ہم کسی سے بلاوجہ کی دشمنی نہیں کر سکتے اس کے لئے کسی جائز وجہ کا ہونا ضروری ہے ۔لیکن اس دنیا میں کچھ انسان ایسے ہیں جو اس آفاقی سچ کے برعکس اُلٹ چلتے ہیں یعنی ان کو دوستی کے لئے جواز اور وجہ چاہیے اور دشمنی بلاوجہ کرتے ہیں جانتے ہیں یہ کون لوگ ہیں؟

یہ اہل یہود یعنی بنی اسرائیل میں سے گمراہ لوگ ہیں یہی لوگ عیسائی دنیا کو مسلمانوں کے خلاف جنگوں پر اُکسانے والے  تھے جنہوں نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں سے صلیبی جنگیں لڑیں اور رَبِّ ذالجلال نے ہر جنگ میں انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار کیا اور پھر سُلطان صلاح الدین ؒ کے ہاتھوں تاریخی شکست دی جس کے بعد یہ انتہائی سرد علاقوں کی جانب دکیل دئیے گئےیعنی موجودہ نارواے،ڈینمارک وغیرہ۔۔آج پھر یہی لوگ ہیں جو امریکی اور یورپی عیسائیوں کے پیچھے کھڑے سازشوں کے جال بن رہے ہیں ۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے بند دروازوں کے پیچھے آج نیو ورڈ آرڈر قائم کر لیا ہے ۔نیو ورڈ آرڈر درحقیقت دینا پر ایک عالمی حکومت قائم کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہے۔جو عالمی طاقتیں آج اقتدار پر قابض ہیں انہیں بھی امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں معلومات ہیں لہذا وہ میڈیا کے ذریعے عام لوگوں (خاص طور پر مسلمانوں) کو بے خبر رکھنا چاہتے ہیں .







   



0 comments: